کچھ دل داغدار کی باتیں

  محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

23 شوال 1442ھ/ 5 جون 2021 بروز سنیچر

 آج کی جدید ٹیکنالوجی نے طلبہ کو درس گاہوں سے غافل کردیا ہے، علما کو سہل پسند بنا دیا ہے، دار الافتاء سے تحقیقی مزاج چھین لیا ہے، دن بہ دن ہمارے طلبہ، نو فارغ علما اور با صلاحیت افراد شوشل میڈیا کی نذر ہوتے جارہے ہیں، شوشل میڈیا کے لیے ہماری قربانیوں کا یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر درس گاہوں میں طلبہ کو عقیدہ وکلام اور حدیث وفقہ کے دقیق مباحث سمجھانے والے اساتذہ نہیں ہوں گے، دار الافتاء میں بیٹھ کر عصر جدید کے نو پید مسائل کا حل پیش کرنے والے مفتیان کرام نہیں ہوں گے، مساجد ومدارس اور مرکزی مقامات کے لیے مذہبی افراد تیار کرنے والے قائدین نہیں ہوں گے۔

مانا کہ انٹر نیٹ کی دنیا بڑی وسیع ہے، اور اس وقت جدید وسائل کے ذریعے دعوت وتبلیغ کی ضرورت بھی ہے، لیکن یہی سب کچھ تو نہیں ہے۔

 اہل علم کا مشغلہ تعلیم وتعلم ہے، با صلاحیت افراد کا میدان درس وتدریس ہے، ارباب نظر کی جولان گاہ دار الافتاء ہے، اور دیدہ ور علمائے کرام کا طرہ امتیاز تحقیق و تدقیق ہے۔

یہ حضرات جب تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے امت مسلمہ کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں گی، اور امت مسلمہ کے عقائد ومعمولات کی حفاظت ہوتی رہے گی،  لہذا امت مسلمہ کے عقیدہ وعمل کے تحفظ کے لیے ہر زمانے کی طرح اس زمانے میں بھی اچھے مفسر، محدث، فقیہ، اصولی، متکلم، صوفی اور ادیب حضرات کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورتیں شوشل میڈیا کے ذریعے کبھی پوری نہیں پوری ہوسکتیں، بلکہ جز وقتی تعلیم سے بھی پوری نہیں ہوسکتی، اس کے لیے تو باقاعدہ طور پر درس گاہوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا، جہاں اساتذہ اپنے طلبہ کا مستقبل سنوارتے ہیں، انھیں مفید اور کار آمد بناتے ہیں، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتے اور پروان چڑھاتے ہیں، مضبوط بنیادوں پر انھیں علم وتحقیق کے اصول سکھاتے ہیں، اور ہر قسم کی تعریف وتنقید سے بالا تر ہوکر دین متین کی خدمت کا جذبہ عطا کرتے ہیں۔ 

 واٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر گروپ ایڈ مین بننے سے کچھ نہیں ہوگا، فیس بک، ٹویٹر پر لائک وصول کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اور یوٹیوب پر ویورس کی تعداد بڑھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔

چلو، واپس چلتے ہیں، اسی ماحول میں اپنی سرمدی عزت تلاش کرتے ہیں جہاں کی خاک سے مہ و انجم ڈھالے جاتے ہیں،  جہاں سے بحر العلوم، شارح بخاری، محدث کبیر، صدر العلماء اور سراج الفقہاء جیسے اساطین فن پیدا ہوتے ہیں، جہاں قوم کی رہبری، ملت کا درد، سنیت کی فکر، تحقیقی مزاج، تدریسی ذمہ داری اور شریعت وسنت کی پاسداری کا درس دیا جاتا ہے،

چلو واپس چلتے ہیں، ہمارا اصل مقام وہی ہے، ہماری صحیح شناخت بھی وہی ہے، چلو درس گاہوں میں بیٹھتے ہیں، اپنے اساتذہ کرام سے اکتساب فیض کرتے ہیں، ان کی رہنمائی میں اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں، آج بھی ہمیں امام محمد کا وہ زریں ارشاد یاد ہے کہ ہماری قوم ہم پر بھروسا کرکے سو رہی ہے، اگر ہم بھی سوجائیں تو پھر ہماری قوم کا کیا ہوگا؟ چلو عہد کرتے ہیں کہ ہم حصول علم کی خاطر شب بیداری کریں گے، اور جس طرح ہمارے اسلاف نے بڑی محنت و جانفشانی کے ساتھ ہم تک علمی امانت منتقل کی ہے ہم بھی اس عظیم امانت کو آگے منتقل کریں گے، اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ 


نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے

وہی آب وگل ویراں وہی تبریز ہے ساقی

نہیں ہے نو امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی