سوال: الفاظ قسم شمار کیجیے،اور یہ بتائے کہ قرآن کی قسم قسم ہے یا نہیں۔

الفاظ قسم، قسم کی شرعی حیثیت | Qasam ka bayan


الجواب بعون اللہ تعالی: اللہ عزّوجلّ کے اسماے مبارکہ میں سے جس بھی اسم کے ساتھ قسم کھائی جائے خواہ بول چال میں اس اسم کے ساتھ قسم عام ہو یا عام نہ ہو، وہ الفاظ قسم میں شمار ہوگا، مثلاً اللہ عزوجل کی قسم، خدا کی قسم، رحمٰن کی قسم، اور رحیم کی قسم، یا اس کی کسی صفت کے ساتھ حلف لیا، جیسے خدا کی عزت و جلال کی قسم، اس کی کبریائی کی قسم، اس کی عظمت کی قسم وغیرہ تو ان الفاظ سے قسم پڑ جاتی ہے۔ در مختار میں ہے:
  
 " و القسم باللہ تعالیٰ و باسم من اسمائہ کالرحمٰن و الرحیم أو بصفۃ من صفاتہ تعالی کعزۃ اللہ و جلاله و کبریائه و عظمته و قدرته " اھ
    ترجمہ: اور قسم اللہ تعالی کی ہوتی ہے اور اس کے ناموں میں سے کسی نام سے جیسے رحمٰن اور رحیم، یا اس کی صفتوں میں سے کسی صفت سے جیسے اللہ کی عزت کی قسم، اس کی جلال، کبریائی، عظمت یا اس کی قدرت کی قسم۔
    ( رد المحتار علی الدر المختار، ج: 5، ص: 481 تا 484، کتاب الأیمان ،بیروت)

    قسم کھاتا ہوں، میں شہادت دیتا ہوں، خدا گواہ ہے، مجھ پر قسم ہے، ان مذکورہ بالا قسم کے الفاظ سے بھی اگر کسی نے قسم کھائی تو وہ حالف کہلائے گا، اور اگر قسم میں فعل ماضی استعمال کیا تو بھی یہی حکم ہے یعنی قسم کھانے والا ہوگا جیسے میں نے قسم کھائی۔
اسے بھی پڑھیں۔ معذور کا حکم

     در مختار میں ہے:" والقسم أیضاً بقوله أقسم أو أحلف أو أعزم او أشھد بلفظ المضارع و کذا الماضی بالاولیٰ کأقسمت و غیرھا۔" اھ
    ترجمہ: اقسم، احلف، اعزم اور اشھد مضارع کے ان الفاظ سے بھی قسم کھائی تو قسم کھانے والا ہوگا اور یہی حکم فعل ماضی کا بھی ہے جیسے اقسمت وغیرہ۔ ( رد المحتار علی الدر المختار، ج: 5، ص: 489، کتاب الأیمان ،بیروت)
 
   اور حروف واو، با، تا، اور لام بھی قسم کے لیے ہیں اگر کسی نے ان حروف کے ساتھ قسم کھائی تو وہ قسم کھانے والا ہوگا۔ در مختار میں ہے:    و من حروفه الواو و الباء و التاء و لام القسم۔" یعنی واو، با، تا، اور لام قسم بھی حروف قسم سے ہیں۔ (المرجع السابق)                                                
قرآن کی قسم کا حکم

     اس زمانے میں قرآن کی قسم، قسم ہے اگر کسی نے قرآن کی قسم کھائی تو وہ قسم کھانے والا ہوگا۔ خواہ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی یا قرآن مجید سر پر رکھ کر قسم کھائی یا بغیر قرآن اٹھائے قسم کھائی، ان سب صورتوں میں قرآن کی قسم مانی جائے گی۔
  
 فتاوی شامی میں ہے:"أما فی زماننا فیمین، و قال محمد بن مقاتل الرازی: إنه یمین و به أخذ جمھور مشائخنا۔" 
    ترجمہ: ہمارے زمانے میں قرآن کی قسم بھی قسم ہے۔ محمد بن مقاتل رازی فرماتے ہیں: قرآن کی قسم بھی یمین ہے اور اسی کو ہمارے جمہور مشائخ نے اختیار کیا ہے۔

    قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو سکے قسم کم ہی کھانی چاہیے، بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھا ہے کہ ارادتاً اور غیر ارادی طور پر ان کی زبان سے قسم نکلتا رہتا ہے اور اس کا بھی خیال نہیں کرتے کہ یہ بات سچی ہے یا چھوٹی، یہ سخت نہ پسندیدہ ہے۔ 
  
 غیر خدا کی قسم کھانا مکروہ ہے اور یہ شرعی طور پرقسم بھی نہیں ہے یعنی اس کے توڑنے والے پر کفارہ لازم نہیں ہوگا۔واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
        
        کتبہ محمد اشرف رضا مصباحی
                24/ ربیع الآحر 1443ھ
                30/ نومبر 2021ء منگل