سوال: قسم کی کتنی قسمیں ہیں سب کی تعریف اور حکم وضاحت کے ساتھ بیان کیجیے۔

قسم کی اقسام، قسم کی کتنی قسمیں ہیں| Qasam ka bayan



    الجواب بعون الملک الوھاب: قسم کی تین قسمیں ہیں۔ (1) لغو (2) غموس (3) منعقدہ

    یمین لغوکی تعریف یہ ہے کہ زمانۂ ماضی یا حال میں کسی بات پر قسم کھائی یہ گمان کرتے ہوئے کہ جس طرح وہ خبر دے رہا ہے معاملہ اسی طرح ہے حالاں کہ حقیقت میں معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ جیسے کسی نے یہ قسم کھائی: "خدا کی قسم زید گھر گیا ہے" اور قسم کھانے والا اپنے گمان میں سچا ہے لیکن حقیقت میں زید گھر نہیں گیا۔

    یمین لغو کا حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں گناہ اور کفارہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:"لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغ۠وِ فِی۠ۤ أَی۠مَانِکُم۠ وَ لٰکِن۠ یُّؤَا خِذُ کُم۠ بِمَا کَسَبَت۠ قُلُو۠بُکُم۠ ؕ وَ اللہُ غَفُو۠رٌ حَلِیْمٌ "۔ (
سورۂ بقر: آیت:225)

     ترجمۂ کنز العرفان: اللہ ان قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرمائے گا جو بے ارادہ زبان سے نکل جائے ہاں اس پر گرفت فرماتا ہے جن کا تمہارے دلوں نے قصد کیا ہو اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا حلم والا ہے۔

         یمین غموس یہ ہے کہ زمانۂ ماضی یا حال میں کسی شی کی اثبات یا نفی (یعنی کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے) پر قسم کھائی، اس میں جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے، جیسے "اللہ کی قسم خالد آیا تھا" حالاں کہ وہ نہیں آیا تھا۔

     یمین غموس کا حکم یہ ہے کہ غموس کی صورت میں قسم کھانے والا سخت گناہ گار ہوگا اس پر توبہ و استغفار فرض ہے لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔

    یمین منعقدہ یہ ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائی جیسے " واللہ میں یہ کام کروں گا" یا "واللہ میں یہ کام نہیں کروں گا"۔

     اس کا حکم یہ ہے کہ جب اپنی اس قسم میں حانث ہوجائے یعنی جس کام کو کرنی کی قسم کھائی اس کو نہ کیا یا جس کو نہ کرنے کی قسم کھائی اس کو کر لیا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا۔

    قَسم کی کچھ اور قسمیں ہیں ایک کہ اس قَسم کو پورا کرنا ضروری ہے مثلاً کسی ایسے کام کو کرنے کی قسم کھائی کہ بغیر قسم کے بھی اس کا کرنا ضروری تھا یا گناہ سے دور رہنے کی قسم کھائی تو اس صورت میں قسم سچی کرنا ضروری ہے۔ جیسے قسم کھائی، " باخدا ظہر کی نماز پڑھوں گا" یا " خدا کی قسم زنا نہیں کروں گا"۔ تو ضروری ہے کہ اپنی قسم پوری کرے۔

    ایک یہ کہ قَسم توڑنا ضروری ہے، مثلاً گناہ کرنے کی قسم کھائی یا یہ قسم کھائی کہ فرائض و واجبات ادا نہیں کرے گا۔ جیسے قسم کھائی " ماں باپ سے بات نہیں کروں گا" تو ضروری ہے کہ قسم توڑ دے اور کفارہ ادا کرے۔ یمین منعقدہ جب توڑے گا تو اس پر کفارہ لازم آئے گا اگر چہ شریعت نے اسے توڑنا ضروری قرار دیا ہو۔

    ایک یہ کہ قسم توڑنا مستحب ہے، مثلاً کسی ایسے کام کی قسم کھائی کہ اس کے غیر میں بہتری ہے تو بہتر ہے کہ ایسی قسم کو توڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے۔ ایک یہ کہ مباح کی قسم کھائی یعنی ایسی قسم کھائی کہ اس کا کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہے تو اس صورت میں افضل یہ ہے کہ قسم کو باقی رکھے توڑے نہ۔ واللہ تعالی اعلم بالصģواب۔

    
ماخوذ از: (1) بدائع الصنائع، الجزء الثالث، کتاب الأیمان، ص:4، برکات رضا گجرات۔
            (2) فتاوی ھندیہ، ج:2، ص:52، بیروت۔
            (3) بہار شریعت، حصہ نہم، ص:298، قسم کا بیان۔

                     کتبہ محمد اشرف رضا مصباحی
                    29/ ربیع الآخر 1443ھ
                    5/ دسمبر 2021ء اتوار